إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اللہ نے تو تم پر صرف مردار حرام کیا ہے اور خون ، اور سور کا گوشت ، اور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو ، پھر جو نہ زور کرتا ہو ، اور نہ ہی زیادتی اور عاجز ہوگیا ، تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (ف ١)
ف 2 یعنی جس جانور کو بھی غیر اللہ کے نام سے شہرت دی جائے۔ مثلاًً شیخ سدّو کا بکراہ یا سید احمد کبیر کی گائے یا فلانے شاہ کا مرغا وغیرہ۔ ہر حال میں وہ جانور حرام ہوگیا اور أُهِلَّ کا لفظ ذبح کے علاوہ اس کو بھی شامل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ (مَلْعُونٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ) (سنن ابی دائود) لہٰذا جس پر غیر اللہ کا نام آگیا تو اس میں ایسی خباثت آ گئی جو مردارمیں بھی۔ نہیں کیونکہ مردار پر تو صرف اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ مگر ” أُهِلَّ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ ہمیں اس جانوروں کی روح اس کے خالق کے سوا دوسرے کے نام پر بھینٹ چڑھا دی گئی اور یہ شرک ہے لہٰذا ایسا ذبیحہ حرام ہے یہ آیت شریفہ قرآن میں چار مرتبہ آئی ہے۔ اس کے معنی ’’مارُفِعَ بہ الصَوتُ لِغیر اللہ“ ہیں نہ کہ ” ماذُبِحَ باسم غیر اللہ“ گویہ اس میں بطریق اولیٰ داخل ہے جس کی بنا پر بعض مفسرین نے أُهِلَّکی تفسیر ” ذبح“ جو اس وقت کی صورت حال کے پیش نظر اور بیان واقعہ کے لئے ہے۔ ہمارے دور میں اس نئے شرک کا وقوع ہوا ہے اس لئے برصغیر پاک و ہند کے علما نے اسے خوب حل فرمایا ہے اور شاہ عبدالعزیز کی تفسیر عزیزی اس پر شاہد عدل ہے (ترجمان نواب)