سورة النحل - آیت 113

وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور ان کے پاس انہیں میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا ، اس لئے انہیں عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے ۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 غالباً اس آیت کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے ورنہ اس کی تعیین کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو جس عذاب یا بھوک اور خوف کے لباس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قحط ہے جس میں مکہ والے کئی برس تک مبتلا رہے یہاں تک کہ وہ جلی ہوی ہڈیاں اور مردار جانور تک کھا گئے اور یہ قحط اس لئے واقع ہو کہ آنحضرت ﷺ نے بد دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ ان لوگوں پر اپنی سختی نازل فرما اور ان پر قحط اور خشک سالی کی صورت میں ایسا ہی عذاب بھیج جیسا یوسف(علیہ السلام) کے زمانہ میں آیا تھا بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا تذکرہ نہیں ہے۔ محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں کی ناشکری کی تو تمہارے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا۔ قاضی شوکانی نے اس دوسری رائے کو راجح قرار دیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں پر احوال فرمایا مکے کا۔