وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
اور جو آسمانوں میں ہے اور جو جان دار زمین میں ہے اور فرشتے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔
ف 4 یعنی دنیا کی ہر چیز پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ۔ جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے۔ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ یہاں جملہ ایشیا پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ” داخرون“ فرما ای ہے۔ (از روح) شاہ صاحب اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے۔ اس کا سایہ بھی کھڑا ہے۔ جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع اور رکوع سے سجدہ اس طرح ہر چیز اپنے سایہ سے نماز ادا کرتی ہے۔ (کذا فی الموضح) ف 5 پہلے ان چیزوں کا سجدہ بیان فرمایا جو زمین میں پائی جاتی ہیں۔ اب یہاں زمین و آسمان میں پائے جانے والے تمام جاندار خصوصاً فرشتوں کا سجدہ بیان کر کے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب ہستیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان میں کوئی تکبر یا غرور نہیں پایا جاتا لہٰذا ان کے متعلق یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ وہ اللہ کی بٹیاں ہیں اور ان کا خدا کی خدائی میں کوئی حصہ ہے۔ شوکانی