وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
اور ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو ، اور طاغوت سے بچے ہو ، پھر ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت کی اور کسی پر گمراہی قائم ہوگی ، سو زمین میں سیر کرو ، پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ۔
ف 6 لہٰذا اگر کا فریج بحثی یا ہٹ دھرمی کرتے ہیں اور ایمان نہ لائیں تو پیغمبروں سے اس پر باز پرس نہ ہوگی ہدایت و گمراہی کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں کام برا لگتا تو کیوں کرنے دیتا۔ آخر ہر فرقے کے نزدیک بعض کام برے ہیں پھر وہ کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں جواب مجمل فرمایا کہ رسول تو برے کاموں سے منع کرتے آئے ہیں مگر جس کی قسمت تھی اس نے ہدایت پائی جس کو خراب ہونا تھا خراب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہی ہوا ہے۔ (از موضح) ف 7 طاغوت کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے معنی اپنی حد سے بڑھنے کے ہیں۔ یہ شیطان معبود باطل اور ہر اس شخص پر بولا جاسکتا ہے جو ضلالت کی طرف داعی ہو۔ شوکانی شاہ صاحب لکھتے ہیں جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں۔ بت شیطان اور زبردست ظالم سب ہی ہیں۔ (از موضح) ف 8 ینی ہر پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے اور طاغوت سے بچتے رہنے کی دعوت دی۔ پھر بعض نے تو دعوت کو قبول کرلیا اور ہدایت پا گئے مگر بعض نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر گمراہی ثبت کردی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی اس کے امر سے موافقت ضروری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان کا حکم تو سب کو دیتا ہے مگر اللہ کی ارادہ کے مطابق ہدایت بعض کو ہوتی ہے۔ (شوکانی) ف 9 یعنی ان کے تباہ شدہ آثار دیکھ کر بتائو کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں آیا۔ لہٰذا یہ سمجھنا انتہائی حماقت ہے کہ کفر و شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنی رضا مندی کا راستہ بتایا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے پیغمبروں کی پیروی ضروری ہے۔