سورة البقرة - آیت 182

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر جو کوئی وصیت کرنے والے کی طرفداری یا گناہ سے ڈرا اور اس نے ان کے درمیان صلح کرا دی ‘ اس پر کچھ گناہ نہیں ، بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 فاصلح بینھم یعنی ورثہ کو سمجھابجھا کر ان میں صلح کر ادے وصیت کا بدلنا بڑا گناہ ہے اور اس میں کتمان یعنی وصیت کو چھپانا بھی داخل ہے لیکن اگر اس میں کسی کی حق تلفی ہو یا خلاف شریعت کسی امر کی وصیت کی جائے مثلا شراب پلانے کی ناچ کرنے کی کسی قبر پر چراغاں کرنے یا میلہ اور عرس وغیرہ کرانے کی تو ایسی وصیت کا تبدیل کرنا واجب او ضرور ہے۔ (وحیدی) حدیث میں ہے الجنف جی الوصیتہ من انکبا ئر کہ وصیت میں کسی کی حق تلفی کبیرہ گناہ ہے اور سنن نسائی میں ہے کہ آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو جنازہ کی نماز نہ پرھنے کی سرزنش فرمائی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ظلم کرجاتا ہے فرمایا : فیختم لہ لبشر ھملہ فید خل النار۔ کہ اس کا خاتمہ بہت برے عمل پر ہوتا ہے جس کی پاداش میں آگ میں چلا جاتا ہے (قرطبی۔ ابن کثیر )