سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بھلا جو شخص (یعنی اللہ) ہر کسی کے سر پر اس کا کیا لیے کھڑا ہے ، وہ ان کو بغیر سزا دیے چھوڑ دے گا اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھرائے ہیں تو کہہ ان کے نام بتاؤ آیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو وہ زمین میں نہیں جانتا ۔ یا ظاہری باتیں بناتے ہو ؟ نہیں بلکہ کافروں کے فریب ان کے لیے سجائے گے ہیں اور وہ اللہ کی راہ سے روکے گئے ہیں ، اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کا کوئی ہادی نہیں۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1۔ کیا وہ تمہارے جھوٹے معبودوں کی طرح ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟ اتنی عبارت محذوف ہے۔ ف 2۔ حالانکہ سے زمین کے چپے چپے کی خبرہے۔ تو اگر ان شرکاء کا کہیں وجود ہوتا تو وہ انہیں ضرورجانتا۔ اس تفسیر کی رو سے يَعۡلَمُ میں ھو کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”لا يَعۡلَمُ “ میں ضمیر ” ما“ کے لئے ہو اور مطلب یہ ہو کہ کیا اللہ تعالیٰ کو ان بے جان بتوں کے معبود ہونے کی خبر دیتے ہو جن کو ذرہ بھر بھی علم نہیں ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ” اس سے مقصود تو زمین و آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی نفی کرنا ہے لہٰذا ” فِي ٱلۡأَرۡضِ “ کی قید محض اس لئے لگائی ہے کہ کفار اپنے بتوں کے ” الٰھۃ الارض“ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔(ازروح۔ ابن کثیر)۔ ف 3۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مراد ہے ان کا اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینا۔ ف 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی۔