أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ
اس نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر اپنے اندازہ پر نالے بہے ، پھر بہتے ہوئے پانی پھولا ہوا جھاگ اٹھایا ۔ اور اس میں بھی جسے وہ زیور با اسباب کے لیے آگ میں گلاتے ہیں (یعنی دھات میں) پانی کی مانند جھاگ ہے ۔ یوں اللہ حق و باطل کی مثال دیتا ہے ۔ سو وہ جھاگ ہے وہ ناجیز ہو کر گر جاتا رہتا ہے ، اور وہ جو لوگوں کو مفید ہے ۔ زمین میں رہ جاتا ہے ۔ یوں اللہ مثالیں بیان کرتا ہے (ف ١)
ف 2۔ یعنی جو نالہ جتنا بڑا تھا اتنا ہی اس میں زیادہ پانی بہا اور جتنا چھوٹا تھا، اتنا ہی اس میں کم پانی بہا۔ ف 3۔ یعنی وہ جھاگ پانی کے اوپرہی ہو نیچے پانی خالص ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہو۔ ف 4۔ اور تپانے سے اوپر آجاتا ہے۔ یہ حق و باطل کی دوسری مثال ہے۔ ف 5۔ یعنی دیرپا ہوتا ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ف 6۔ ان دونوں مثالوں میں حق (قرآن) کو پانی سے تشبیہ دی ہے اور نالوں سے مراد انسانوں کے دل ہیں جو اپنے اپنے طرف واستعداد کے مطابق حق سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ یا وہ حق زیور ہے جس سے نفوسِ انسانی آراستہ ہوتے ہیں اور لوگ معاش و نفوسِ انسانی آراستہ ہوتے ہیں اور وہ لوگ معاش و معاد میں اس سے انواع و اقسام کے منافع اور فوائد حاصل کرتے ہیں اور باطل کی مثال جھاگ کی ہے جو حق سے کشمکش کے موقع پر وقتی طور پر ابھر کر اوپر آجاتا ہے۔ مگر آخر کار مٹ جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو علم و ہدایت دے کر مجھے مبعوث کیا ہے اس کی مثال بارش کی ہے جو زمین پر برسے۔ پھر جو زرخیز اور قابل ہوتی ہے اس پر گھاس چار اگ آتا ہے۔ اور اس میں گڑھے ہوتے ہیں جو پانی کا روک لیتے ہیں۔ لوگ گھاس چراتے اور پانی پلاتے ہیں۔ بہرحال وہ مفید ہے لیکن جو زمین چٹیل اور شور ہوتی ہے، اس میں نہ پانی ٹھہرتا ہے اور نہ سبزہ اُگتا ہے۔ پہلی مثال ان لوگوں کی ہے جو علم دین حاصل کرتے ہیں خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور ان سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسری شور زمین کی مثال ان لوگوں کی ہے۔ جنہوں نے ہدایتِ الٰہی کی طرف نہ آنکھ اٹھائی اور نہ اسے قبول کرنے کی کوشش کی۔ (روح۔ ابن کثیر)۔