لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
اسی کو (معبود سمجھ کر ) پکارنا حق ہے اور اس کے سوا جن کو وہ پکارتے ہیں ۔ ان کو کچھ جواب نہیں دے سکتے ۔ مگر جسے کوئی پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ اس کے منہ میں آ جائے اور وہ کبھی نہ پہنچنے والا ہو اس کو ۔ اور کافروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے (ف ٢)
ف 6۔ یعنی اپنی حاجتیں اور مرادیں پوری کرانے کے لئے اسی کو پکارنا برحق ہے۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی سنتا اور اسے پورا کرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ ف 7۔ جس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر جن کو پکارتے ہیں۔ بعض خیال ہیں اور بعض جن ہیں اور بعض چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں لیکن اپنے خواص کے مالک نہیں پھر کیا حاسل ان کا پکارنا؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں یہ اس کی مثال فرمائی۔ (موضح)۔