إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور دن رات کی تبدیلی میں اور کشتی میں جو دریا میں لوگوں کو نفع پہنچانے کے لئے چلتی ہے اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس نے زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کیا اور اس میں ہر قسم کے حیوان بکھیرے اور ہواؤں کے پھیرنے میں اور بادل جو آسمان وزمین کے درمیان قابو کیا ہوا ہے عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (ف ١)
ف 1: اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے’’ الٰه واحد‘‘ ہونے کا بیان تھا اس آیت میں وحدانیت پر دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان’’ امور ثمانیہ ‘‘کو وجود باری تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کے ثبوت میں متفرق طور پر جا بجا ذکر کیا ہے مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ ان امو ر تکو ینیہ كو خصوصیت سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ ان کی خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریش نے نبی (ﷺ) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے کوہ صفا کو سونا بنا دے اگر اس نے ایسا کردیا تو ہم آپ (ﷺ) پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ صفا کے سونا بن جانے کا کیسے مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں صرف عقل وفکر کی ضرورت ہے۔ (ابن کثیر )