سورة یوسف - آیت 101

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اے رب تونے مجھ کو بادشاہی دی اور باتوں یعنی خوابوں کی تعبیر سکھلائی اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ۔ تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے ۔ مجھے اسلام پر موت دے ، اور نیکوں میں شامل کر۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4 مراد یا تو ” تعبیر رویا“ کا علم ہے اور یا کتب الٰہیہ کے اسرار و دقائق کا فہم (روح)۔ ف 5۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں جلد موت کی تمنا کی، ہوسکتا ہے یہ ان کی شریعت میں جائز ہوجیسا کہ آنحضرت ﷺ نے قرب موت کے وقت اس قسم کے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔( اللَّهُمَّ‌فِي ‌الرَّفِيقِ الْأَعْلَى) اے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملادے۔ (ابن کثیر) آیت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی مجھے موت آئے تو اس حال میں آئے کہ میں مسلمان ہوں۔ اکثر مفسرین نے یہی مفہوم مراد لیا ہےگو بین السطور ترجمہ سے پہلا مفہوم مترشح ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ کوئی مصیبت یا تکلیف سے گھبرا کر موت کی تمنا نہ کرے۔ البتہ جب دین میں فتنه کا خوف ہو تو تمنا کرسکتا ہے جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے اسلام لانے کے بعد دعا کیـİرَبَّنَآ ‌أَفۡرِغۡ عَلَيۡنَا صَبۡرٗا وَتَوَفَّنَا مُسۡلِمِينَĬ ۔ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) نے کہا : İ‌يَٰلَيۡتَنِي مِتُّ قَبۡلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسۡيٗا مَّنسِيّٗاĬ ۔ ایک دعا میں ہے۔ (‌وَإِذَا ‌أَرَدْتَ ‌فِي ‌قَوْمٍ ‌فِتْنَةً وَأَنَا فِيهِمْ ‌فَاقْبِضْنِي ‌إِلَيْكَ ‌غَيْرَ ‌مَفْتُونٍ)۔ (اے خدا) جب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو فتنہ سے بچا کر مجھے اٹھا لے۔ (مسند احمد۔ ترمذی)۔ حضرت علی (رض) نے اپنی خلافت کے آخری دور میں جب حالات بگڑتے دیکھے تو دعا کی۔ ‌اللَّهُمَّ‌خُذْ ‌لِي الیک فقد سمئتھم۔ امام بخاری کو جب امیر خراسان سے جھگڑا پیش آیا تو انہیں یہ دعا کرنی پڑی۔ اللھم توفنی الیک ! مجھے اپنی طرف بلالے (مختصر از بن کثیر)۔