سورة یوسف - آیت 50

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور بادشاہ نے کہا میرے پاس اسے لے آؤ سو جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا یوسف نے کہا اپنے مالک کے پاس چلا جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے ‘ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے ، میرا رب ان کے فریب جانتا ہے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5۔ یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا۔ ف 6۔ وہی قصہ یاد دلایا جس سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہ کو میرے مقدمہ کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ سب کے سامنے میرا پاک دامن اور بے قصور ہونا پوری طرح واضح ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ مواقع تہمت سے بچنا بھی واجب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا( من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یقفن مواقف التھم)۔ کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان ہے اسے اتہام کی جگہوں سے دور رہنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس کھڑے تھے کہ وہاں سے ایک شخص گزرا، آنحضرتﷺ نے اسے بلا کر فرمایا :” یہ میری بیوی ہے“۔ اس نے عرض کی اللہ کے رسول ! آپﷺ پر بدگمانی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا (إِنَّ ‌الشَّيْطَانَ ‌يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ)(روح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی بلند ہمتی اور عقلمندی کی داد دیتے ہوئے) تواضعا فرمایا : اگر میں اتنی مدت جیل میں ٹھہرتا جتنی مدت یوسف ( علیہ السلام) ٹھہرے تو بادشاہ کے بلانے پر چلنے کو تیار ہوجاتا۔ (ابن کثیر)۔