ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ
پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگ بارش پائیں گے اور (انگور) نچوڑیں گے۔ (ف ١)
ف 4۔ یعنی اس سال وہ پھل جن سے رس نکلتا ہے جیسے انگور، زیتون اور لیموں وغیرہ کثرت سے پیدا ہوں گے اور جانور بھی اچھا چارہ ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دیں گے۔ اس بنا پر بعض نے ” يَعۡصِرُونَ “ کے معنی یَحلِبُون“ کئے ہیں۔ یعنی خوب دودھ نکالیں گے۔ (ابن کثیر)۔ یہ بات حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بذریعہ وحی خواب کی تعبیر سے زائد بتائی جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ (رض) سے مروی ہے۔ (روح) اور قحط کا مقابلہ کرنے اور غلہ محفوط رکھنے کے لئے جو طریق اختیار کیا جائے وہ بھی واضح فرمادیا۔ نیز اس کے بعد دوبارہ خوشحالی کی خوش خبری بھی دے گی۔ (از ابن کثیر وغیرہ) اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کافر بھی سچے خواب دیکھ لیتا ہے۔ یہ تاویل بظاہر اس حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے ”( الرُّؤْيَا عَلَى جَنَاحِطَائِرٍ مَا لَمْ تُعَبَّرْ، فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ)“ یعنی خواب کی جو تعبیر ہوجائے اسی پر ہوتا ہے کیوں کہ انہوں نے ” أَضۡغَٰثُ أَحۡلَٰمٖ“ کا حکم لگا کہ تعبیر بیان کردی تھی مگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اس کے بعد صحیح تعبیر بتائی : فلم یکن علی ما عبرت اولا : ابن العربی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس تعبیر کے ساتھ خاص ہے جس کا رویا میں احتمال ہو اور ان کا ” أَضۡغَٰثُ أَحۡلَٰمٖ“ کہنا دراصل تعبیر نہ تھی بلکہ تعبیر کے قابل نہ ہونے کی طرف اشارہ تھا لہٰذا حدیث( ان الرویا علی ما عبرت اولا )اور اس آیت میں منافات نہیں ہے۔