سورة یوسف - آیت 33

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولا اے رب جس بات کی طرف مجھے یہ عورتیں بلاتی ہیں اس سے قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے ، اور اگر تو ان کا فریب مجھ سے دفع نہ کرے تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں میں ہوں گا ،

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5۔ ” یہاں صیغہ تفضیل (احب) اپنے اصلی معنی میں نہیں ہے بلکہ دو مصیبتوں میں سے ” اہون“ کو اختیار فرما رہے ہیں۔“ یہ ہے اصل تقویٰ۔ حدیث میں ہے کہ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل حکمران، وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں نشوونماپائی۔ وہ شخص جو مسجد سے جب بھی باہر جاتا ہے اس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے یہاں تک واپس آجائے۔ وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ ہی کی رضا جوئی کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کی، اسی محبت پر جمع ہوئے اور اسی محبت پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس نے اپنا صدقہ اس قدر چھپا کردیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نہ کیا دیا۔ وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور وہ آدمی جسے کسی باثر و رسوخ خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا مگر اس نے کہاَ” انی اخاف اللہ“ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری مسلم)۔ ف 6۔ کیونکہ جب کوئی شخص اپنے علم مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ اور جاہل برابر ہیں یا جہالت بمعنی سفاہت ہے۔ یہ ہے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی پیغمرانہ شان، اپنی طہارت اور پاک دامنی کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا : کہ عفت و پاکدامنی پر ثابت قدم رکھنا للہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر توفیق نہ دے گا تو میں نفس اور شیطان کے فریب میں آکر گناہ کی طرف مائل ہوجائوں گا۔ (وحیدی)۔