قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ
بولے ، اے شعیب جو تو کہتا ہے ہم اس میں کی بہت باتیں نہیں سمجھتے اور تجھے ہم اپنے درمیان ناتواں دیکھتے ہیں ‘ اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے سنگسار کرتے اور تو ہم پر غالب نہیں ہے (ف ١) ۔
ف 3۔ یہ بات انہوں نے یا استہزا اور تحقیر کے انداز میں کہی یا خدا کی نافرمانی کرتے کرتے ان کے ذہن اس قدر مسخ ہوچکے تھے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی سیدھی باتیں بھی واقعی ان کے ذہن میں نہ آتی تھیں حالانکہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نہ کسی غیر زبان میں گفتگو کرتے تھے اور نہ ان کا انداز بیان ہی پیچیدہ اور الجھا ہوا تھا بلکہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) اپنی فصیح البیانی کی وجہ سے ” خطیب الانبیاء ( علیہ السلام) “ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ نہ تیرے پاس فوج ہے، نہ حکومت اور نہ کرو فر۔ ف 5۔ جو ہمارے دین پر ہیں لیکن تیری پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ف 6۔ جس زمانہ میں یہ آیات نازل ہوئیں، بالکل وہی صورت حال نبی ﷺ کو مکہ معظمہ میں درپیش تھی۔ قریش آپﷺ کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور ہر ممکن طریقے سے آپﷺ کی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے لیکن چونکہ بنی ہاشم آپﷺ کی پشت پر تھے اور خاص طور پر آپﷺ کے چچا ابو طالب آپﷺ کی پوری طرح حفاظت کر رہے تھے اس لئے قریش کو آپﷺ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکی۔