سورة ھود - آیت 87

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بولے اے شعیب (علیہ السلام) ، کیا تیری نماز نے تجھے یہ سکھلایا ، کہ ہم ان کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے بڑے پوجتے تھے یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں جو چاہیں ‘ نہ کریں ، تو تو بڑا برد بار نیک ہے۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5۔ یعنی کیا تو اپنی نماز کا دائرہ عمل اس قدر وسیع سمجھتا ہے کہ دوسروں کے مذہبی و مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگا ہے۔ ہماری مرضی ہے جس کی چاہیں پوجا اور جس کی چاہیں بندگی کریں اور یہ مال جو ہمارے اپنے ہیں ان میں جس طرح چاہیں تصر ف کریں۔ جائز ناجائز جیسے چاہیں کمائیں۔ کوئی ہمیں کیوں ٹوکے؟ ف 6۔ پھر تو ایسی نادانی کی باتیں کرنے لگا ہے؟ یا بس تو ہی ایک عقلمند اور نیک چلن آدمی رہ گیا ہے۔ باقی ہم اور ہمارے باپ دادا جاهل اور احمق ہی رہے ! یہ بات انہوں نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے استہزا اور تمسخر کے انداز میں کہی۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکوں کے کام آپ نہ کرسکیں تو انہیں کو لگیں چڑانے، یہی خصلت ہے کفر کی۔