سورة ھود - آیت 81

قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فرشتے بولے اے لوط (علیہ السلام) ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ‘ یہ تجھ تک پہنچ نہ سکیں گے ، سو کچھ رات گئے تو اپنے اہل لے کر نکل جا ، اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھئے مگر تیری عورت کہ اس پر وہی مصیبت آئی ہے جو ان پر آئے گی ، ان کے وعدہ کا وقت صبح ہے ، کیا صبح نزدیک نہیں ؟ (ف ٢) ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5۔ یعنی جب فرشتوں نے دیکھا کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) بالکل عاجز آگئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو رونہ نہ سکنے کی وہج سے سخت رنجیدہ ہیں تو انہوں نے ظاہر کردیا کہ ہم فرشتے ہیں۔ ف 6۔ پیچھے سے عذاب کی بنا پر شور اور دھماکوں کی آواز بھی آئے تب بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھو بلکہ اس علاقے جلد از جلد نکل جانے کی فکر کرو۔ ف 7۔ اسے ساتھ نہ لے جائو کیونکہ وہ کافر ہے یا وہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی۔ (وحیدی)۔ ف 8۔ علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ جب حضرت لوط ( علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے چل دئیے تو ان کی بیوی بھی ساتھ تھی لیکن جب عذاب نازل ہونے کی آوازیں آنے لگیں تو وہ پیچھے مڑ کر اپنی قوم کی تباہی پر افسوس کرنے لگی۔ ایک پتھر اس پر بھی آکر گرا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔ یہ ملطب اس صورت میں ہوسکتا ہے جب ” الامریک کا استثنا“ لا یلتفت سے ہو مگر اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ ساتھ ہی نہیں گئی اور اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوگئی۔ اس صورت میں یہ استثناء ” فاسر باھلک“ سے ہوگا۔ (ابن کثیر)۔ ف 9۔ ہمارے حضرت ﷺ کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔ (موضح)۔