سورة ھود - آیت 12

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

سو (اے محمد ﷺ) کہیں تو وحی کی باتیں جو تجھ پر نازل ہوئیں چھوڑ بیٹھے گا ، اور تیرا دل اس سے تنگ ہوجائیگا ، (اس خیال سے) کہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نہ نازل ہوا ، یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا تو تو ڈرسنانے والا ہے ‘ اور اللہ ہر شے پر وکیل ہے۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9۔ ان آیات میں آنحضرتﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن و تشنیع سے تنگ آکر کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں بلکہ مشرک کی مذمت اور توحید کے اثبات کے متعلق جو وحی بھی آئے اسے بلا کم و کاست ان تک پہنچاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وحی کا وہ حصہ حذف کردیں جس میں بتوں کی عیب جوئی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 1۔ یعنی آپﷺ نے عذاب سے ڈرانے ولا بنا کر بھیجا ہے لہذا بلا خوف لومۃ لائم آپﷺ اس فریضہ کو سرانجام دیتے ہیں۔ (از وحیدی)۔ ف 2۔ یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو آپﷺ کا ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپﷺ پر سینکڑوں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت و حکمت ہوگی ویسا ہی کرے گا۔ آپﷺ کو ان چیزوں سے کیا غرض۔ آپﷺ تو اللہ کا جو حکم آئے بے دھڑک ان کو سناتے رہیں۔ (کذا فی الوحیدی)۔