سورة یونس - آیت 93

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے بنی اسرائیل کو پسندیدہ جگہ (ملک کنعان) میں جگہ دی ، اور ان کو ستھری چیزیں کھانے کو بخشیں ، سو ان میں اختلاف نہیں ہوا جب تک کہ ان کو خبر آپہنچی ، ان کی اختلافی باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن تیرا رب کرے گا ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 11۔ یعنی ملک شام دیا کہ کوئی مخالف مند رہا۔ (موضح)۔ یعنی بلادِ مصر اور شام، بیت االمقدس اور ” غرقابی“ کے بعد بنی اسرائیل کا مصر پر مکمل قبضۃ ہوگیا۔ ابن کثیر)۔ مگر وہاں زیادہ عرصہ ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ ان کو حکم تھا کہ ملک شام عمالقہ سے فتح کرکے وہاں چلے جائو چنانچہ یوشع کے زمانہ میں ان فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 12۔ یعنی اللہ کی کتاب تورات نازل ہوچکی اور اس میں بیان کردہ احکام کا انہیں پتا چل گیا۔ مطلب یہ ہے کہ آپس میں اختلاف اور تفرق کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے پاس حقیقت کا علم نہ تھا بلکہ یہ سب کچھ انہوں نے جانتے بوجھتے شرارتِ نفس کی بنا پر کیا۔ بنی اسرائیل کے اختلافات کی داستان بہت طویل ہے۔ ف 13۔ وہاں معلوم ہوجائے گا کہ کون حق پر تھا اور کون باطل پر۔ پھر حق پرستوں کو اپنی نیکی کا انعام اور باطل پرستوں کو اپنی بدعملی کی سزا ملے گی۔