وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ، اے ہمارے رب تونے دنیا کی زندگی میں فرعون اور اس کی قوم کو زینت اور بہت مال دیا ہے ، اے ہمارے رب اس لئے (دیا) کہ وہ تیری راہ سے (لوگوں کو) گمراہ کریں ؟ اے رب ان کے مال مٹا دے ، اور ان کے دل سخت کر دے ، کہ ایمان نہ لائیں ، جب تک دکھ کا عذاب نہ دیکھیں ،
ف 1۔ ” لیضلوا“ میں لام عاقبت اور انجام کو ظاہر کرنے کے ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوگا ” اے اللہ ان لوگوں کو دنیا کی دولت اور حکومت تو تو نے اس لئے دی تھی کہ اسے نیکی کی راہ میں صرف کریں اور شکر بجا لائیں مگر نتیجہ یہ ہوا کہ ان بدبختوں نے اسے لوگوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے میں صرف کیا۔ (قرطبی۔ شوکانی)۔ ف 2۔ یہ بددعا حضرت موسیٰ نے اس وقت کی جب وہ سمجھاتے سمجھاتے مایوس ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب فرعون اور اس کے سردار ایمان لانے والے نہیں جیسا کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے آخر تنگ آکر اپنی قوم کے حق میں بددعا کی تھی۔ (شوکانی)۔