وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ ، اور اپنا گھر قبلہ رو بناؤ ، اور نماز پڑھو ، اور مومنین کو بشارت دے (ف ١) ۔
ف 6۔ آیت ’ واجعلو بیوتکم قبلۃ (اپنے گھروں کو قبلہ بنالو) کے مفسرین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ایک یہ کہ اپنے گھروں ہی کو مسجد بنا لو۔ یعنی جب فرعون کی طرف سے سکتی اور نگرانی زیادہ ہے اور تمہارے لئے مسجدوں میں آکر نماز پڑھنا ممکن نہیں تو تم گھروں ہی میں نمازیں ادا کرتے رہو۔ کہتے ہیں کہ فرعون ن ان کو مسجدیں بھی مسمار کرا دی تھیں۔ یہ حکم حالت اضطرار میں تھا۔ لہٰذا حدیث ” وجعلت لی الارض“ کے منافی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے گھروں میں بکثرت عبادت کیا کرو تاکہ اسے ظلم سے نجات ملے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب کوئی مشکل معاملہ درپیش ہوتا آپو نماز پڑھتے۔ (ابو دائود)۔ تیسرے یہ کہ گھروں کو قبلہ رخ تعمیر کرو اور ان میں خفیہ طور پر نماز پڑھا کرو۔ قبلتہ سے مراد بعض نے کعبہ لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کعبہ کی طرف منہ کرتے ہوں۔ بعد میں یہود نے ” صخرہ“ کو قبلہ بنا لیا ہو۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 7۔ کہ فرعون کی تباہی کے دن آیا ہی چاہتے ہیں۔ (شوکانی)۔