فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
پھر موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہ لایا ، مگر اس کی قوم کی کچھ ذریت ایمان لائی ، سو وہ بھی اپنے سرداروں اور فرعون سے ڈرتے ہوئے کہ انہیں فتنہ میں نہ ڈالیں ، کیونکہ فرعون ملک پر چڑھ رہا تھا اور (ظلم کیلئے) اس نے ہاتھ بالکل چھوڑ رکھتے تھے (ف ١) ۔
ف 3۔ اکثر مفسرین (رح) نے آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت ابتدائی دور کی ہے۔ بعد میں تو قارون کیس وا سب بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے۔ ” ملئھم“ میں ھم کی ضمیر جمع ہے۔ اس کا مرجع یا تع فرعون ہے (جیسا کہ ترجمہ میں ہے) کیونکہ مصری لوگ فرعون کے لئے بطور تعظیم جمع کی ضمیر استعمال کرتے تھے یا اس کر مرجع بنی اسرائیل کے سردار ہیں۔ یعنی بنی اسرائیل ( علیہ السلام) میں سے جو نوجوان ایمان لائے انہیں ایک طرف فرعون کا ڈر تھا اور دوسری طرف خود اپنے سرداروں کا لیکن حافظ ابن کثیر نے آیات کے اس مطلب کی سخت تردید کی ہے۔ ان کی ترجیح میں ” ذریۃ من قومہ“ میں ” ہ“ کی ضمیر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف نہیں بلکہ فرعون کی طرف راجع ہے کیونکہ بنی اسرائیل تو پہلے سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی آمد کے منتظر تھے اور ان کے تشریف لانے پر سب کے سب ایمان لے آئے ( اور اس کی تائید اگلی آیت بھی کر رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کے تمام بنی اسرائیل حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لاچکے تھے) البتہ فرعون کی قوم قبطیوں میں سے چند نوجوان ہی ایسے نکلے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ اور آیت کا ترجمہ یوں ہوگا ” پھر موسیٰ ( علیہ السلام) پر اس (فرعون کی قوم) قبطیوں میں سے صرف چند نوجوان ہی ایمان لائے اور وہ فرعون اور اپنے سرداروں سے ڈرے کہ کہیں وہ (فرعون) نہیں آفت میں نہ ڈالے“ یہ ترجمہ زیادہ واضح ہے اور علمائے تحقیق نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (ابن کثیر۔ روح المعانی)۔