وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ
اور جو وعدہ (عذاب) ہم نے اہل مکہ سے کیا ہے اگر ان میں سے کوئی ہم (تیری حیات میں) تجھے دکھلائیں گے یاہم تیری موت بھیجیں گے ، تو انہیں ہماری طرف آنا ہے پھر اللہ ان کے کاموں کا گواہ ہے ۔(ف ١)
ف 6۔ آپﷺ کے دین کا غلبہ اور مخالفین کی ذلت و خواری یعنی قتل و قید۔ الغرض یہ وعدے قرآن کے بیان کے مطابق بعض تو آپ ﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوگئے اور کچھ آپﷺ کی وفات کے بعد خلفأ (رض) کے زمانہ میں۔ بہرحال آپﷺ سچے ہیں۔ موضح میں ہے۔ غلبہ اسلام کو کچھ حضرات کے رو بروہوا اور باقی آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء (رض) کے عہد میں ہوا۔ شاید ” أَوۡ نَتَوَفَّيَنَّكَ “ میں اس دوسرے دور کی طرف اشارہ ہے۔ (کذافی الکبیر)۔ ف 7۔ یعنی وہاں ہم آپﷺ کو ان کا عذاب دکھا دیں گے۔ اس میں تنبیہ ہے کہ حق پرستوں کی عاقبت محمود اور مخالفین کی عاقبت نہایت مذموم ہوگی۔ (کبیر)۔