سورة یونس - آیت 36

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور اکثر ان میں صرف گمان کے پیرو ہیں اور حق میں گمان کچھ کام نہیں آتا ، خدا جانتا ہے ، جو وہ کرتے ہیں ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2۔ یعنی ان مشرکین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اللہ تعالیٰ کا اقرار تو کرتے ہیں مگر اس اقرار کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنی سنائی باتوں کی اتباع کرتے ہیں۔ ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بت پرستی کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہے بلکہ اپنے باپ دادا کی پیروی کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہمارے باپ دادا ٹھیک تھے۔ اس صورت میں اکثر بمعنی کل ہوگا۔ (کبیر)۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے جاہل مسلمانوں کا ہے جو بزرگوں کی قبریں پوجتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ اور اولیاء، اللہ کے کارخانہ کے مختار ہیں۔ ایسے ہی بہت سے احمقوں نے شاہ پری، جن پری وغیرہ بنا رکھے ہیں۔ (از سلفیہ)۔ ف 3۔ یعنی دین کی بنیاد تو یقین پر ہے۔ محض اٹکل پچواور باپ دادا کی اندھی تلقید پر نہیں ہے۔ یہاں ” ظن“ سے مراد وہ ظن ہے جو حسن کے خلاف ہو ورنہ ” ظن“ کے معنی یقین بھی آجاتے ہیں۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 40) اور جو خبر متواتر نہ ہو اس کو بھی اہل اصول ظنی کہہ دیتے ہیں۔ اگر وہ صحیح اور حسن کے درجہ میں ہو تو واجب العمل ہیں۔ یہ امت محمدیہ کا اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے۔ اس لئے حدیث کو محض ظنی کہہ کر ہم رد نہیں کرسکتے۔