أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ
کیا لوگوں کو تعجب ہوا ، کہ ہم نے ان میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کی ، کہ لوگوں کو ڈرا اور ایمانداروں کو بشارت دے کر خدا کے پاس ان کے لئے بڑا رتبہ ہے ‘ کافروں نے کہا کہ یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) صریح جادوگر ہے (ف ١) ۔
ف ١٣۔ یعنی آخر اس میں تعجب اور حیرت کی کون سی بات ہے کہ انسانوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے اور فلاح و سعادت کی راہ دکھانے کے لئے خود انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا دیا گیا؟ تعجب کی بات تو جب ہوتی کہ ان کا پروردگار ہدایت کا کوئی سامان نہ کرتا اور یا ان میں کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا دیتا کیونکہ فرشتہ یا جن انسانوں کے لئے ” اسوہ حسنہ“ نہیں بن سکتا۔ (از قرطبی وابن کثیر)۔ ف ١٤۔ یا سچائی کا مقام یعنی جنت۔ علما نے لکھا ہے کہ ” قدم“ کا لفظ سعی و عمل سے کنایہ ہوتا ہے لہذا ” قدم صدق“ سے مراد نیک اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ انہیں ان کے نیک اعمال کا اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بدلہ ملے گا۔ (قرطبی) ف ١۔ اور یہ کہنے میں کافر سراسر جھوٹے تھے اس لئے قرآن نے اس کا جواب نہیں دیا۔ (کبیر)۔