سورة یونس - آیت 2

أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کیا لوگوں کو تعجب ہوا ، کہ ہم نے ان میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کی ، کہ لوگوں کو ڈرا اور ایمانداروں کو بشارت دے کر خدا کے پاس ان کے لئے بڑا رتبہ ہے ‘ کافروں نے کہا کہ یہ شخص (محمد ﷺ) صریح جادوگر ہے۔(ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 13۔ یعنی آخر اس میں تعجب اور حیرت کی کون سی بات ہے کہ انسانوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے اور فلاح و سعادت کی راہ دکھانے کے لئے خود انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا گیا؟ تعجب کی بات تو جب ہوتی کہ ان کا پروردگار ہدایت کا کوئی سامان نہ کرتا یا ان میں کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا کیونکہ فرشتہ یا جن انسانوں کے لئے ” اسوہ حسنہ“ نہیں بن سکتا۔ (ازقرطبی وابن کثیر)۔ ف 14۔ یا سچائی کا مقام یعنی جنت۔ علما نے لکھا ہے کہ ” قَدَمَ “ کا لفظ سعی و عمل سے کنایہ ہوتا ہے لہذا ” قَدَمَ صِدۡقٍ “ سے مراد نیک اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ انہیں ان کے نیک اعمال کا اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بدلہ ملے گا۔ (قرطبی) ف 1۔ اور یہ کہنے میں کافر سراسر جھوٹے تھے اس لئے قرآن نے اس کا جواب نہیں دیا۔ (کبیر)۔