إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
مسلمانوں سے ان کی جانیں اور مال اللہ نے بہشت کے بدلے خرید کی ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پھر مارتے اور مرتے ہیں ، یہ سچا وعدہ ہے جو اللہ پر لازم ہے ، اور توریت اور انجیل اور قرآن میں لکھا ہے ۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے ، سو اپنی اس بیع پر جو تم نے اس سے کی ، خوشی کرو ، اور یہ بڑی مراد پانی ہے (ف ١) ۔
ف ٢ منافقین کے بیان سے فارغ ہونے کے بعد اب اس آیت میں جہاد کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مروی ہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب ستر آدمیوں سے آپ نے بیعت تو شرط کی کہ ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا اور میری ذات کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تم اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہو۔ انصار نے کہا اگر ہم یہ کرلیں تو ہمارے لئے کیا ہوگا ؟ فرمایا ” الجنہ“ کہ تمہارے لئے اس کے بدلہ جنت ہوگی۔ انصار نے اس پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا ہمیں منظور ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ذکرہ الحافظ (کبیر۔ ابن کثیر)