أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کا آباد رکھنا ، اس شخص کے برابر سمجھ لیا جو اللہ پر اور آخری دن پر ایمان لایا ، اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، اور خدا کے نزدیک برابر نہیں ، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔
ف 4 یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر ایمان باللہ اور جہاد کے مقابلے میں کچھ حثیت نہیں رکھتے اور پھر ایمان کے بغیر یہ مقبول بھی نہیں، ( کبیر) مشرکین مکہ کو اس بڑا فخر تھا کہ ہم کعبہ کے متولی ہیں حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ لہذا مسلمانو جہاد اور ہجرت کی وجہ سے ہم سے افضل نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ جنگ بدر کے بعد حضرت ابن عباس (رض) قید ہو کر آئے تو ان کی حضرت علی (رض) سے اس قسم کی بحث بھی ہوئی۔ حضرت اعباس (رض) کہنے لگے، اگر تم ایمان جہاد اور ہجرت میں ہم سے سبقت رکھتے ہو تو ہم اس کے مقابلے میں مسجد حرام کی خدمت کرتے اور حاجیوں کو پانی پلاتے رہے ہیں پس تم ہم سے کسی صورت افضل نہیں ہو سکتے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک جمعہ کو چند مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس اس مسئلہ میں بحث کرنے لگے، ایک نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے سے بہتر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا کہنے لگا کہ میرے نزدیک مسجد حرام کی خدمت افضل ہے تیسرے نے کہا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد تمام عبادات واعمال سے افضل ہے۔ آخرت کار حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں کو ڈانٹا اور خاموش کرایا،۔ پھر جمعہ کے بعد ان لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی مسئلہ پوچھا تو یہ آیات نازل ہوئیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور ان تمام لوگوں کارد فرمایا جو خانہ کعبہ اور حاجیوں کی خدمت کو ایمان اور اور جہاد فی سبیل اللہ کا ہم مرتبہ سمجھتے تھے کیونکہ ایمان تو ہر چیز کی روح اور اصل ہے اس کے بغیر کسی بڑے سے بڑے عمل کا بھی اعتبار نہیں ہے اور جہاد سے سچے اور جھوٹے مسلمان کے مابین تمیز ہوجاتی ہے اور یہ دین کی حٖفاظت اور اعلا کلمتہ اللہ کا واحد ذریعہ ہے اس لیے اس کا درجہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ( ابن کثیر، و کبیر )