سورة التوبہ - آیت 1

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(مسلمانو ! ) جن مشرکوں سے تم نے عہد باندھا تھا ، ان کو اللہ اور رسول سے قطعی بیزاری (یعنی جواب) ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی چونکہ رسوۃ توبہ اور سورت انفعال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے کو ایک سورت کا حکم میں رکھا گیا ہے اور ام دو نو کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھتی گئی اوری سبع طوال میں ساتویں سورۃ ہے۔ اس کے متعد نام ہیں جن میں سے مشہور دو میں ایک التو نبہ اور دوسرابراۃ تو نہ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایما کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور برا ۃ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برات کا اعلان کیا گیا ہے نیز اس کو سورۃ العذاب، سورۃ العذاب، سورۃ الفا ضحہ اور الحافرۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورۃ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الر حیم، نہیں لکھی جاتی، اس کے مفسرین (رح) نے متعدد دو جوہ بیان کئے ہیں مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شروح میں بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لئے صحابہ (رض) کرام نے نہیں لکھی، صحیح روایا میں ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا جنہوں نے نکہ معظمہ پہنچ کر حج کر موقعہ پر مشرکین کو کہ سورۃ سنائی اور اس کے ساتھ چاچیزوں کا اعلان کیا۔ (1) جنت میں کوئی غیر مومن داخل نہ ہوگا۔ (2) کوئی شخص ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔ (3) اس سال کے بعد کوئی مشر کین حج کے لیے نہ آئے اور (4) جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ موقت ہے اور انہوں نے اس کی خلاف ورزی نہیں کی ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائیگی اور جن سے معاہدہ نہیں ہوا یا جنہوں نے خلاف ورزی کی ہے انہیں چار ماہ کی مہلت ہے۔ ( ابن کثیر، کبیر) ف 4 یعنی اب معاہدہ ختم ہو اور دوستی کے تعلقات کٹ گئے۔ ) ( وحیدی )