وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
اور جب تم ملے تھے تو تمہاری نظروں میں انہیں تھوڑا کر دکھلایا ، اور ان کی آنکھوں میں تمہیں تھوڑا کر دکھلایا ، تاکہ وہ کام کرے ، جو پہلے ہوچکا تھا ، اور سب کام اللہ کی طرف پھرتے ہیں ۔
ف 12 یہ اس وقت کی کیفیت ہے جب جنگ ہونے والی تھی لیکن وہ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ کافر مسلمانوں کو تھوڑے نظر آتے حتیٰ کہ بعض نے خیال کیا کہ وہ ستر سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آنحضرت (ﷺ) کے خواب کی بھی تائید ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھ جائے نیزکفار زیادہ تیاری کی ضرورت نہ سمجھیں مگر جب جنگ شروع ہوگئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ نظر آنے لگی جیسا کہ سورۃ آل عمران میں فرمایا،İيَرَوۡنَهُم مِّثۡلَيۡهِمۡ رَأۡيَ ٱلۡعَيۡنِۚĬ ( وہ بظاہر ان کو اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے)، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ شروع ہونے پر کافروں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ جلدی ہی شکست کھا کر پیچھے کی طرف بھا گنے لگے اور مسلمانوں کے حوصلے بد ستور بڑھتے رہے۔۔ ف 13 یعنی وہی اسلام کی فتح اور کفر کی شکست ہو اور آنحضرت (ﷺ) کی سچائی پر معجزانہ دلیل قائم ہوجائے۔ (کبیر ) ف 1 یعنی وہی جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا۔ اور پھر جب اصل اختیار ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسی کو اپنا مقصود بنائے۔