إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
جب تم میدان کے پرلے کنارے اور قریش پرلے کنارہ پر تھے اور (قافلہ کے) سوار تم سے نیچے دریا کی طرف اتر گئے تھے ، اور اگر تم آپس میں کچھ وعدہ کرلیتے ، تو تمہیں وعدہ خلاف ہونا پڑتا ، لیکن خدا کو مقررہ (ف ٢) کام کرنا تھا تاکہ جو ہلاک ہو ، دلیل سے ہلاک ہو ، اور جو زندہ رہے ‘ دلیل سے زندہ رہے ، اور اللہ سنتا اور جانتا ہے ۔
ف 4 یعنی وادیٔ بدر کے اس سرے پر جو مدینہ منورہ کی سمت ہے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی ساحل بحر کی طرف، یہ منصوب علی الظرفیةہے یا موضع حال میں ہے جیسا کہ جمہور علما کا خیال ہے جنگ کے اس نقشہ کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اسو قت بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ دشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ ( روح) ف 6 یعنی تم اپنے مقابلے میں ان کی کثرت تعداد سے ڈرتے اور وہ رسول اللہ (ﷺ) کے رعب اور ہیبت سے ( کذافی الوحیدی) ف 7 مراد اہل اسلام کی فتح اور اہل کفر کی شکست ہے۔ ( ازا بن کثیر) ف 8 یا یہ کہ اتمام حجت ہو اور کسی کے لیے عذر کا موقع نہ رہے یعنی اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھ کر کافر رہے ( اور ہلاکت میں پڑے) اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو۔ ( وحیدی )