سورة الاعراف - آیت 127

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور قوم فرعون کے سردار بولے ، کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو چھوڑتا ہے تاکہ زمین میں فساد کریں ، اور تجھے اور تیری معبودں کو ترک کئے رہیں ؟ اس نے کہا اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرینگے ، اور لڑکیوں کو جیتا رکھیں گے ، اور ہم ان پر غالب ہیں (ف ١) ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 کہ و لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دے کر ملک کے امن و امان کو غارت کرتے رہیں ؟ ف 3 حضرت عبداللہ بن عمر الا ھتک قرات کرتے ہیں یعنی تیری عبادت مگر جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون نے کچھ چھو ٹے چھوٹے بن بنواکر لوگوں کو دئیے تھے کہ میرا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان کی پو جا کریں اس لیے وہ لوگوں سے کہا کرتا اناربکم الاعلی ورب ھذہ الا صنام یعنی تمہارا بڑا رب ہوں اور ان بتوں کا بھی رب ہوں امام رازی فرماتے ہیں میرا خیال یہ ہے کہ فرعون دہریہ تھا اور صانع کا منکر وہ کہا کرتا کہ اس عالم کی تد بیر کواکب کرتے ہیں مگر اس عالم کی مربی میں ہوں ۔ اس لیے تمہیں چاہیے کہ میری عبادت کرو۔ ( دیکھئے سورۃ القصص آیت) اور ہوسکتا ہے کہ اس نے ان ستاروں کی صورتیں کے بت بنوا کر رکھے ہوں، پس الھتہ سے مراد یا تو وہ چھوٹے چھوٹے بت ہیں جن کی فرعون خود بھی پو جا کیا کرتا تھا، بایں صورت لھتک اپنے ظاہری معنی پر محمول ہوگا۔ (کبیر، فتح البیا) ف 4 یعن ہم جو ظلم وستم موسیٰ کی پیدا ئش سے پہلے بنی اسرائیل پر کرتے تھے، اس کا سلسلہ پھر سے شروع کریں گے اس طرح یہ تباہ ہوجائیں گے اور ان کا تخم تک باقی نہ رہے گا ان کے مرد مارے جائینگے صرف عورتیں بچیں گی، وہ کیا کرسکیں گی، ان کو ہم لونڈیاں بناکر اپنے گھروں میں رکھیں گے ،