سورة الاعراف - آیت 89

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر ہم بعد اس کے کہ خدا نے تمہارے مذہب سے ہمیں نجات دی ہم اس میں لوٹ آئیں تو بےشک ہم نے خدا پر جھوٹ باندھا ہے اور ہمیں لائق نہیں ، کہ ہم اس میں لوٹیں ، مگر اللہ ہمارا رب ہی چاہئے علم کے لحاظ سے ہمارا رب ہر شئے پر حاوی ہے ہم نے اللہ پر توکل کیا ، اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں تو حق کیساتھ فیصلہ کر دے ، اور تو بہتر منصف ہے ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 پھر بھی ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں گے ؟ حضرت شعیب ( علیہ السلام) ج کا یہ سوال انکار کے لیے ہے یعنی جب دلائل وبرہیم کی روشنی میں ہم تمہارے دین کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے بیز ارہو چکے ہیں تو اسے دوبارہ اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ف 3 یہ ان کی بات کا دوسر اجواب ہے جس میں تصریح کردی ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے مطلب یہ ہے کہ اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں تو ان کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اب تک جو ہم نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے رہے تھے وہ سب جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر بہتان تھا۔ یہاں بھی بعد اذ نجانا اللہ کہنا یا تو ان مومنوں کے اعتبار سے ہے جو حضرت شعیب ( علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے اور یا ان کے زعم کے مطابق حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے کہہ دیا ہے کہ وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے دین میں داخل سمجھتے تھے۔ ف 4 اس لیے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے چنانچہ اب ہم ی دعویٰ کر رہے ہیں کہ دوبارہ تمہارا دین اختیار نہ کریں گے وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو دی ہوئی توفیق کی بنا پر کر رہے ہیں، کیونکہ ارادہ خواہ کتناہی نیک کیوں نہ ہو اس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیئت پر مو قوف ہے اس استثبا سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو اپنے خاتمہ بالخیر پر یقین نہ تھا انبیا کو تو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین ہو تو ہی ہے مگر یہ بات صرف اظہار عجز اور تفو یض کے طوپر کہی ہے یا دوسرے مومنین کے اعتبار علامہ واحدی لکھتے ہیں کہ ابنیا ( علیہ السلام) اور اکابر امت ہمیشہ ہی برے انجام سے پناہ مانگتے رہے ہیں۔ حضرت خلیل ( علیہ السلام) کی دعا واجنبنی وبی ان نعبد الا صنام، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموما ی دعا فرتے رہتے یا مقلب القلوب ثبث قلو بنا علی دینک اے دلوں کو استقامت بخشنے والے ہمیں اپنے دین پر ثابت قدمی کی توفیق تمہارے جبرو اکراہ سے تو ہم کفر اختیار نہیں کرسکتے ہاں بالفرض اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی ( معاذ الہ) یہی ہو تو دوسری بات ہے ( رازی) ف 5 ہم اسی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں راہ حق پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے۔ ف 6 یعنی ان معاندین کے مقابلے میں ہماری مدد فرمایا ان پر عذاب نازل فرماکر ہمارے حق پر ادران کے باطل پر ہونے کو خوب واضح کردے ( رازی )