بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (ف ١)
بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) اس سورت کو الفاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی کتابت اور نماز میں قرات اسی سے شروع ہوتی ہے اس اعتبار سے گویا قرآن کا دیباچہ ہے عہد نبوت میں اس کا مشہور تر نام یہی تھا اور اسی عتبار سے اسے ام الکتاب اور ام القرآن بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجملا قرآن کے جمیع علوم پر حاوی ہونے کی و جہ سے ام الکتاب سے ملقب کردیا گیا ہو نیز ان کے نام الصتوہ السبع الثانی اور القرآن العظیم بھی مر فو عا ثاتب ہیں صحابہ وتابعین سے اس کے بہت سے اور نام بھی منقول ہیں مثلا الوافیہ، اساس القرآن الشفاء وغیرہ (قر طبی) احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل منقول ہیں دارمی میں ہے فاتحہ الکتاب شفاء من کل سقم کہ سورت فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی مگر علماء نے لکھا ہے کہ اس کی فضیلت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور بعض اس کا نزول مکرر بھی مانتے ہیں (ابن کثیر۔ قرطبی) (2) قرآن کی تلاوت شروع کرتے وقت اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم پڑھ لینا چاہیے جیسا کہ سورت نحل میں ہے فا ذاقرأت القران فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم اور ابو سعید الخدری سے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں سورت فاتحہ تعوذ پڑھ لیا کرتے تھے ( ابن کثیر۔ قرطبی) مسئلہ اس سورت کا نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے جیسا کہ عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (صاح ستہ) کہ جس نے سورت فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے اور یہ حکم ہر شخص کے لیے ہے خواہ وہ تنہا نماز بڑھ رہا ہو یا جماعت سے امام ہو یا مقتدی نماز جبری ہو یا ستری، فرض ہو یا نفل اور حضرت عبادہ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ قرات گراں ہوگئی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تم لوگ امام کے ہوتے ہوئے قرات کرتے ہوں ہم نے عرض کی جی ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تفعلوا الا بام فاتحہ لا صلوہ لمن لم یقرء بھا ایسا نہ کرو مگر سورت فاتحہ ضرور پڑھ لیا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ( سنن ابوداؤد۔ ترمذی) (3) سورت نحل میں یہ جزو آیت ہے اور بلا جماع سے سورت فاتحہ اور دوسری اور سورتوں کی جز و ہے ورنہ فصل کے لیے کوئی اور علامت بھی متعین ہو سکتی تھی جہری نمازوں میں اسے جہر ( بلند آواز) سے پڑھنا چاہیے یا ستر (یعنی پوشیدہ) سے احادیث سے دونوں طرح ثابت ہے صحیحین میں حضرت انس (رض) اور مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انحضرت اور خلفائے اربعہ نماز میں قرات الحمد اللہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے یعنی بسم اللہ سترا) آہستہ) پڑھا کرتے تھے دوسری روایات میں جہری نمازو میں بالجہر ( بلند آواز سے) پڑھنا بھی ثابت ہے (ورمنشور۔ نیل) ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں پوشیدہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے مگر احیا نا سترا اور احیا جہرا پڑھ لیا جائے تو بہتر ہے تاکہ دونوں قسم کی احادیث یہ عمل ہوجائے ( المنار) نماز دونوں طرح ہوجاتی ہے اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے ابن کثیر )