فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ أُولَٰئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
سو اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وہ ان کو مل جائے گا (١) یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے وہ کہیں گے کہ وہ سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔
1۔ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا......: اس کا تعلق اوپر کی آیت : ﴿وَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا﴾سے ہے، یعنی یہ دو قسم کے لوگ تو بہت ہی بڑے ظالم ہیں، پہلی قسم میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے یا اﷲ کا شریک بنانے والے، یا اﷲ تعالیٰ کی طرف کسی حکم کی جھوٹی نسبت کرنے والے، (اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرنے والے بھی شامل ہیں) اور دوسری قسم میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو قرآن کے کتاب الٰہی ہونے سے انکار کرتے ہیں، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر ہیں۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ يَنَالُهُمْ نَصِيْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ: یعنی اﷲ تعالیٰ نے کتاب ’’ لوح محفوظ‘‘ میں ان کا جو حصہ عمر، رزق ، راحت یا رنج وغیرہ کا لکھا ہے وہ انھیں ملے گا اور ان کے ظلم اور بدکاری کے باوجود اس میں کمی نہیں کی جائے گی کہ شاید توبہ کر لیں، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو انھیں ڈانٹتے ہوئے کہیں گے کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اﷲ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے گم ہو گئے اور وہ اپنے آپ پر شہادت دیں گے کہ واقعی وہ کافر تھے۔ یہ آیت صریح نص ہے کہ اﷲ کے سوا کسی کو بھی پکارنا، اس سے مدد مانگنا، فریاد کرنا، استغاثہ کرنا، اسے غوث یا مشکل کشا کہنا یا سمجھنا کفر ہے، خواہ وہ اﷲ کے سوا کتنی بڑی ہستی کوئی فرشتہ یا رسول یا ولی ہو۔ قیامت کے دن وہ حضرات ان کو منہ بھی نہیں دکھائیں گے اور اﷲ کے سوا کسی کو پکارنے والے خود اپنے آپ پر شہادت دیں گے کہ واقعی ہم کافر تھے اور ایمان سے محروم تھے۔ ایک دفعہ غیر اﷲ کو پکارنے والوں سے گفتگو کے موقع پر مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ نے ندائے غیر اﷲ کے کفر ہونے کی دلیل کے لیے یہ آیت پڑھی اور آخر گفتگو تک اسی پر قائم رہے۔ غیر اﷲ کو پکارنے والوں میں سے کوئی بھی اس آیت کا جواب نہیں دے سکا تھا۔ افسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ایسی واضح آیات کے ہوتے ہوئے مسلمان کہلانے والے بعض علماء اور ان کے پیروکار غیر اﷲ کو پکارتے ہیں، ان سے مدد طلب کرتے ہیں، کوئی ’’ يَا رَسُوْلُ اللّٰهِ ! اَغِثْنِيْ ‘‘ کہتا ہے، کوئی یا علی مدد کہتا ہے، کوئی شیخ عبد القادر کو مدد کے لیے پکارتا ہے، پھر بھی ایسے لوگ اپنے آپ کو مسلمان اور موحدین کو کافر قرار دیتے ہیں۔ بہرحال قیامت کچھ دور نہیں ہے۔