وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور یہ کہ دین (١) میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو (٢) دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔
1۔ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا ....: یعنی اﷲ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے، مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگرد بہت سی راہیں بنا ڈالی ہیں۔ عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک لکیر کھینچی، اور فرمایا : ’’یہ اﷲ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے۔‘‘ پھر اس کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا : ’’یہ الگ الگ راستے ہیں، ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [ أحمد:1؍465، ح : ۴۴۳۶۔ مستدرک حاکم :2؍318، ح : ۳۲۴۱ ] تمام دینوں میں سے صراط مستقیم صرف اسلام ہے، باقی سب باطل ہیں، اس آیت میں جس طرح تمام باطل دینوں سے منع فرمایا گیا ہے اسی طرح اسلام میں بھی فرقے بنانے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلام میں سیدھی راہ صرف کتاب و سنت کی راہ ہے، جس پر وہ پہلے تین زمانے گزرے ہیں جنھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر الناس قرار دیا ہے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۳۶۵۱ ] اس کے سوا سب راستے ممنوع ٹھہرے، خواہ وہ مذاہب اربعہ کی تقلید ہو یا اہل بدعت کے بنائے ہوئے اور طریقے ہوں، کیونکہ یہ شروع ہی بعد میں ہوئے ہیں۔ پرانی اور نئی ہر قسم کی بدعات گمراہ کن ہیں، خود ائمۂ دین اور سارے مجتہدینِ سلف و خلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے، بلکہ سب کے سب کتاب و سنت کی اتباع کریں، یہی صراط مستقیم ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔ 2۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تم اﷲ کی نافرمانی، اس کے عذاب اور جہنم سے بچ جاؤ، کیونکہ مختلف راستوں سے بچ کر اس کے سیدھے راستے پر چلنے کے سوا بچنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے تقویٰ کی راہ یہی ہے۔