سورة الانعام - آیت 148

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرسکتے (١) اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا (٢) آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو (٣) تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ....: یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود اﷲ کی مرضی اور ارادہ یہ ہے کہ ہم شرک کریں اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انھیں حرام ٹھہرائیں، کیونکہ اگر اﷲ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے یہ کام ہو ہی نہیں سکتے تھے، یہ دلیل ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس پر اﷲ تعالیٰ خوش ہے، لہٰذا یہ صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انھوں نے اﷲ کی مشیت، مرضی اور ارادے کو شرک کے اور بعض حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لینے کے صحیح اور حق ہونے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا، گویا ان کے کہنے کے مطابق اﷲ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کاموں پر خوش ہے اور انھیں پسند کرتا ہے اور وہ درست ہیں، حالانکہ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم نہیں، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَ لَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَوَ اِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ ﴾ [ الزمر: ۷ ]’’ اگر تم ناشکری کرو تو یقیناً اﷲ تم سے بہت بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسند کرے گا۔‘‘ یعنی کفر اور ناشکری اﷲ کے ارادے کے بغیر نہیں ہو سکتی مگر وہ نہ اس پر راضی ہے نہ اسے پسند کرتا ہے۔ مشیت و ارادہ اور رضا و محبت ایک دوسرے کو لازم نہیں، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے تحت ہو رہا ہے لیکن وہ ہر چیز پر راضی نہیں ہے رضا اس کی شریعت کی پابندی کا نام ہے اور ارادہ و مشیت اس کی تکوین ہے یعنی اس کا کائنات کو چلانے کا نظام ہے۔ تکوینی طور پر وہ کیا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں جانتا اور نہ جان سکتا ہے، تشریعی طور پر وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے یہ بتانے کے لیے اس نے پیغمبر بھیجے اور ہر شخص اسے جان سکتا ہے اس لیے ہم شریعت پر عمل کے پابند ہیں۔ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: یعنی در حقیقت یہ بات کہنا اور اﷲ کی تقدیر اور مشیت کو اس کے خوش ہونے کی دلیل قرار دینا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب (جھٹلانا) ہے۔ ان سے پہلے لوگ بھی اسی بہانے کو بنیاد بنا کر رسولوں کو جھٹلاتے آئے ہیں۔ حَتّٰى ذَاقُوْا بَاْسَنَا: یعنی ان کا یہ عذر قطعی غلط اور بے بنیاد ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو ان سے پہلے لوگوں پر ان کے جرائم اور تکذیب کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اپنا عذاب کیوں نازل کرتا؟ (ابن کثیر) قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ....:یعنی تم جو یہ عذر پیش کر رہے ہو وہ کسی عقلی یا علمی بنیاد پر قائم نہیں ہے، اگر تمھارے پاس علم کی کوئی بات ہے تو لاؤ اور پیش کرو۔ کبھی دنیا کی کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے بھی تم نے تقدیر کو بہانہ بنا کر جدوجہد کو ترک کیا ہے، یا اﷲ تعالیٰ نے تمھیں پہلے بتا دیا ہے کہ میں نے آئندہ اس طرح کرنا ہے۔ جب تمھیں معلوم ہی نہیں کہ تقدیر میں کیا ہے تو یہ بہانہ یا شبہ محض تمھارا وہم و گمان ہے اور تم لوگ صرف اٹکل لگا کر اﷲ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہو، جب کہ حقیقت کی دنیا میں وہم و گمان کی کچھ حیثیت نہیں۔ دیکھیے سورۂ نجم(۲۳ اور ۲۸)۔