وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مویشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (١) اور مویشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی (٢) اور کچھ مویشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا (بہتان) باندھنے کے طور پر (٣)۔ ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔
1۔ ’’حِجْرٌ ‘‘ بمعنی ’’مَحْجُوْرٌ ‘‘ ہے، یعنی ممنوع۔ اس میں ان کی جاہلیت کی تین اور صورتیں بیان فرمائی ہیں، پہلی صورت یہ کہ فلاں جانور یا کھیت کا استعمال ممنوع ہے، مگر اس کے لیے جسے ہم اجازت دیں گے اور یہ اجازت بت خانوں کے مجاوروں اور خادموں کے لیے ہوتی تھی۔ 2۔ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا: یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور ان سے سواری یا بوجھ اٹھوانے کا کام نہ لیتے، جیسے بحیرہ، سائبہ وغیرہ۔ دیکھیے سورۂ مائدہ(۱۰۳)۔ 3۔ وَ اَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا....:یہ تیسری صورت ہے کہ وہ کچھ جانوروں کو بت خانوں کے مجاوروں کے لیے خاص کرتے ہوئے انھیں ذبح کرتے وقت یا سوار ہوتے وقت صرف اپنے بت کا نام لیتے، اﷲ کا نام نہ لیتے، بلکہ ان پر حج کے لیے بھی نہ جاتے، تاکہ ان مجاوروں کے سوا کوئی انھیں استعمال نہ کر سکے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں مگر وہ اﷲ پر جھوٹ باندھتے اور باور کرواتے کہ یہ اﷲ کا حکم ہے۔