وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ لوگ وہاں فریب کریں (١) اور لوگ اپنے ہی ساتھ فریب کر رہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں (٢)۔
1۔ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ ....: ’’اَكٰبِرَ ‘‘ یہ ’’ اَكْبَرُ ‘‘ کی جمع ہے، ’’مُجْرِمِيْنَ ‘‘ کا نون ’’هَا ‘‘ کی طرف اضافت کی وجہ سے گر گیا، یعنی مکہ کی طرح پہلے بھی ہم نے ہر بستی کے اکابر اور چودھری اور کھڑپینچ اس کے مجرموں کو بنا دیا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے مکر و فریب اور قوت و اقتدار کے ذریعے سے لوگوں کو ایمان سے روکتے رہے اور فسق و فجور میں پڑے رہے۔ انبیاء کے مقابلے میں بھی یہی لوگ آتے رہے، مگر آخر انجام ایمان والوں کے غلبے پر ہوا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، ہمیشہ کافروں کے سردار حیلے نکالتے ہیں، تاکہ عوام الناس پیغمبر کے مطیع نہ ہو جائیں، جیسے فرعون نے معجزہ دیکھا تو حیلہ نکالا کہ جادو کے زور سے سلطنت لینا چاہتا ہے۔ (موضح) 2۔ وَ مَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ: یعنی اس کا وبال خود ان پر پڑے گا، تو گویا اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں۔