سورة الانعام - آیت 108

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ جاہلانہ ضد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے (١) ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی کیا کرتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ....: یہ آیت سد ذرائع کی دلیل ہے، یعنی اگر ایک جائز کام کسی بڑی خرابی کا ذریعہ بنتا ہو تو اس جائز کام کو بھی چھوڑنا ضروری ہے۔ یعنی اگر تم مشرکین کے معبودوں کو گالی دو گے تو وہ جہالت سے اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے اور تم اس کا سبب بنو گے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ماں باپ کو گالی دینے سے منع فرمایا کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے۔ [ بخاری، الأدب، باب لا یسب الرجل والدیہ : ۵۹۷۳ ] كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ ....: یعنی انسان کی عادت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو، چاہے وہ در حقیقت اچھا ہو یا برا، اچھا ہی سمجھتا ہے، یعنی : ﴿كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ﴾ [ المؤمنون : ۵۳ ] ’’ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔‘‘ لیکن انسان میں غور و فکر کی صلاحیت بھی رکھی ہے کہ وہ برے کام کو پوری آزادی سے چھوڑ کر نیک راستہ اختیار کر سکتا ہے، دنیا کا ہر کام اللہ کے چاہنے سے ہوتا ہے، وہ نہ چاہے تو نہیں ہوتا۔ انسانوں کو امتحان کے لیے اچھے برے دونوں کاموں کا اختیار دینا بھی اس کی مرضی اور حکمت سے ہے، مگر وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور برے کاموں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھیے سورۂ زمر (۷)۔