سورة البقرة - آیت 80

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے (١) اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو (٢) جنہیں تم نہیں جانتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اس آیت میں یہود کی ہمہ گیر گمراہی کا بیان ہے، جس میں عوام اور علماء سبھی مبتلا تھے، یعنی ہم اللہ کے محبوب اور پیارے ہیں ، ہم چاہے کتنے بھی گناہ کریں جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو چند دن وہاں رکھ کر نکال لیے جائیں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے کئی سوال کیے، ان میں سے ایک یہ تھا : (( مَنْ أَهْلُ النَّارِ؟ )) ’’آگ میں جانے والے کون لوگ ہیں ؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہم اس میں تھوڑی دیر رہیں گے، پھر اس میں تم ہماری جگہ لے لو گے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِخْسَؤا فِيْهَا، لاَ نَخْلُفُكُمْ فِيْهَا أَبَدًا )) ’’تمھی اس میں دفع دوررہو، ہم اس میں کبھی تمھاری جگہ نہیں لیں گے۔‘‘ [ بخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب إذا غدر المشرکون .... : ۳۱۶۹ ] ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو یہودی کہا کرتے تھے کہ دنیا کی مدت صرف سات ہزار سال ہے اور لوگوں کو دنیا کے ایک ہزار سال کے بدلے میں آخرت کے صرف ایک دن کا عذاب ہو گا، تو یہ صرف سات دن ہیں ، پھر عذاب ختم ہو جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ﴾ [ ابن أبی حاتم بسند حسن : ۱؍۲۱۰ ] کچھ یہ کہتے تھے کہ جتنے دن ہم نے بچھڑے کی عبادت کی بس اتنے دن جہنم میں رہیں گے۔ [مصنف عبد الرزاق عن قتادۃ ]