سورة الانعام - آیت 81

وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے (١) اگر تم خبر رکھتے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَيْفَ اَخَافُ ....: یہ اوپر کی آیت میں دوسرے جواب کو مکمل کیا ہے، یعنی میں تمھارے ان معبودوں سے کیوں ڈروں، جب کہ مجھے یقین ہے کہ یہ مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈرنا تو تمھیں چاہیے جو بلا دلیل اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا کر ظلم عظیم کر رہے ہو۔ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ....: ہم دونوں میں سے کون امن ( بے خوف ہونے) کا زیادہ حق دار ہے؟ کیا تم مشرکین، جو ان بتوں کے متعلق محض وہم پرستی کی راہ سے یہ سمجھ رہے ہو کہ شاید یہ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، یا ہم خالص توحید پرست، جنھیں یہ یقین و اطمینان حاصل ہے کہ اللہ ہی ہر نفع و نقصان پر قادر ہے اور اس کے سوا دنیا کی کوئی مردہ یا زندہ ہستی ہمارا ذرہ بھر نقصان نہیں کر سکتی۔ اس امت کے کلمہ گو پیر پرست بھی اہل توحید سے کہتے ہیں کہ جو شخص بڑے پیر کی گیارھویں چھوڑ دے اس کا بیٹا یا بھینس مر جاتی ہے، یا کوئی اور نقصان پہنچ سکتا ہے، تو ان کے لیے بھی یہی جواب ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ہے۔