وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (١) سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔
1۔ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ اٰزَرَ ....: اوپر کی آیات میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے دلائل بیان کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے غلط عقائد پر تنقید کی گئی اور اب شرک کی تردید کے لیے ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بطور تائید بیان فرمایا کہ وہ توحید کے سب سے بڑے داعی اور شرک سے بے زار تھے اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ دیکھو انھوں نے کس طرح قوم سے علیحدگی اختیار کی۔ مشرکین مکہ ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہونے کے دعوے دار تھے، جب ابراہیم علیہ السلام موحد تھے تو اب شرک کے جواز پر تمھارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے۔ 2۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا۔ اب پہلی کتابوں میں اگر ان کا نام آرخ یا تارخ لکھا ہو تو قرآن کی بات ہی حق ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آرخ یا تارخ اس کا لقب ہو گا، مگر یہ کہنا کہ ان کے باپ کا نام آزر نہیں تھا بلکہ یہ نام چچا کا تھا، بالکل ہی بے دلیل ہے۔