وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا (١) کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے (٢)
وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ....: جیسا کہ معلوم ہے ابتدا میں ایمان لانے والوں کی اکثریت کمزور مردوں، عورتوں، لونڈیوں اور غلاموں کی تھی، دولت مند بہت کم تھے اور یہی چیز کافر سرداروں کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی۔ وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت بھی پہنچاتے اور کہتے کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا ہے!؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا (دیکھیے احقاف : ۱۱) کیونکہ دنیوی زندگی میں اس نے ہم کو برتری دی ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی دولت مندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ یہ لائق ہیں اللہ کے فضل کے اور اللہ دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔‘‘ (موضح) دراصل اللہ کے ہاں قدر و منزلت ہے تو انھی لوگوں کی جو اخلاص سے اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی غریب اور محتاج ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خالی دنیوی حسب نسب اور خوشحالی کی کوئی قدر نہیں، جیسے فرمایا : ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ [ الحجرات : ۱۳ ] ’’ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ با عزت وہ آدمی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘