وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں (١)۔
1۔ وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ....: اوپر کی آیت میں پیغمبروں کے متعلق فرمایا کہ وہ مبشر (خوشخبری دینے والے) اور منذر (ڈرانے والے) ہوتے ہیں، اب اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انذار ( ڈرانے) کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی ڈرانے کا فائدہ انھی کو ہو سکتا ہے جنھیں دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا خوف ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا نہ ان کی حمایت کرنے والا کوئی مدد گار ہو گا اور نہ سفارشی۔ جو لوگ حشر اور قیامت کو مانتے ہی نہیں اور انکار پر اڑے ہوئے ہیں انھیں آپ کے ڈرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، فرمایا : ﴿ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۶ ] ’’ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو، یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ 2۔ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ : یعنی ان لوگوں کو ڈرانے کا یہ فائدہ ہو گا کہ آپ کے ڈرانے سے ان میں اللہ کا خوف اور زیادہ ہو جائے گا اور وہ گناہوں سے باز آجائیں گے۔ اس آیت سے ان کافروں کا رد بھی مقصود ہے جو یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے معبود اور ٹھاکر وغیرہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے انھیں بچا لیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی اس میں عبرت ہے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کر کے بے فکر ہو کر بے کھٹکے گناہ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی سفارش نہیں چل سکے گی۔