بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی (١) ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں (٢)
1۔ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا ....: اس سے پہلے ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) جس کفر و شرک اور نفاق کو وہ جھوٹی قسمیں کھا کر چھپانے کی کوشش کر رہے تھے اس کی حقیقت کھل جائے گی۔ بعض نے ’’مِنْ قَبْلُ ‘‘ سے دنیا میں چھپانا مراد لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے، یا پھر اس سے کفار کے سردار مراد ہیں، یعنی وہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا ہونا جانتے تھے، مگر اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ قیامت کے دن یہ حقیقت ان کے پیروکاروں پر کھل جائے گی اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ ہمیں دھوکا دیتے رہے ہیں۔ 2۔ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ: یعنی پھر کفر و شرک اور نفاق کی راہ اختیار کریں گے، کیونکہ ان کی یہ آرزو ایمان لے آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی طرح جہنم سے بچنے کے لیے ہے۔ 3۔ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ: اس لیے آخرت میں اس آرزو کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔