ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے (١) بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (٢) اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
1۔ قَسَتْ: ’’ قَسَا يَقْسُوْ ‘‘ (ن) ناقص واوی سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے، جب ایک شے میں دوسری شے سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہو اور پھر کسی عارضے کے سبب وہ صلاحیت باقی نہ رہے تو عربی زبان میں اس پر ’’اَلْقَاسِيْ‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہی حال انسان کے دل کا ہے کہ اس میں دلائل و آیات سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے، مگر جب مختلف اسباب کی بنا پر وہ صلاحیت باقی نہیں رہتی تو اثر قبول نہ کرنے میں اسے پتھر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی سرزنش فرمائی کہ عجیب کم بخت قوم ہو کہ مردے کا جی اٹھنا تک تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مگر پھر بھی تم اپنے کفر اور سرکشی پر ڈٹے رہے اور تمھارے دل نرم ہونے کے بجائے اور سخت ہو گئے، جیسے پتھر، بلکہ اس سے بھی سخت۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کا سا رویہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ لَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ﴾ [ الحدید : ۱۶ ] ’’اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں ان سے پہلے کتاب دی گئی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔‘‘ (ابن کثیر) 2۔ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً: یہاں ”اَوْ“ شک کے لیے نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کیا شک ہو سکتا ہے، بلکہ ”بَلْ“ کے معنی میں ہے، یعنی وہ پتھر کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ ”قَسْوَةٌ“سے اسم تفضیل’’ اَقْسَي‘‘آتا ہے، مگر مزید سختی کے اظہار کے لیے ” اَشَدُّ قَسْوَةً“ فرمایا، ترجمہ میں اس کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے نافرمان لوگوں کے دلوں کی سختی کو پتھروں کی سختی سے تشبیہ دینے کے بعد پتھروں کا شکوہ دور فرمایا کہ پروردگارا ! ہم سخت ہی سہی، مگر اتنے بھی سخت نہیں کہ ان ظالموں کو ہم سے تشبیہ دی جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی نرمی کے بیان کے لیے ان کی تین قسمیں بیان فرمائیں ۔ 3۔ ’’اللہ کے ڈر سے‘‘اس کا تعلق پتھروں کی تینوں قسموں سے ہے۔ معلوم ہوا کہ پتھروں سے نہروں کا پھوٹ نکلنا، ان کا پھٹ جانا اور ان سے پانی کا نکلنا اور ان کا گر پڑنا اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ پتھر تو بے جان چیز ہیں ، وہ کیسے ڈرتے ہیں ، تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل والی مخلوقات کے علاوہ ان میں بھی ایک شعور اور فہم رکھا ہے، جس کی حقیقت وہی جانتا ہے، اگر فلسفے کا مارا ہوا کوئی شخص انکار کرے تو کرے، اہل السنہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ﴾ [ بنی إسرائیل : ۴۴ ] ’’اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ ‘‘ اور فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّيْرُ صٰٓفّٰتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِيْحَهٗ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ﴾ [ النور : ۴۱ ] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے اور اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَ كَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَ مَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ﴾ [ الحج : ۱۸ ] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ﴾ [ الأحزاب : ۷۲ ] ’’بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ﴾ [ الحشر : ۲۱ ]’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو یقیناً تو اسے اللہ کے ڈر سے پست ہونے والا، ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دیکھتا۔ ‘‘ اور فرمایا: ﴿ اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَ الشَّمَآىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ ﴾ [ النحل : ۴۸ ] ’’اور کیا انھوں نے اس کو نہیں دیکھا جسے اللہ نے پیدا کیا ہے، جو بھی چیز ہو کہ اس کے سائے دائیں طرف سے اور بائیں طرفوں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں ، اس حال میں کہ وہ عاجز ہیں ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۲۱ ] ’’اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔‘‘ اسی طرح صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’احد ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ [بخاری، : ۷۳۳۳ ] اور آپ نے فرمایا : ’’میں مکہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو مجھے بعثت سے قبل سلام کہا کرتا تھا۔‘‘ [أحمد :5؍89، ح : ۲۰۸۶۹۔ مسلم : ۲۲۷۷ ] اسی طرح کھجور کے تنے کا بآواز بلند رونے کا واقعہ ہے۔ [ صحیح ابن حبان: ۶۵۰۷ ] اتنے واضح دلائل کے بعد انکار صاف گمراہی ہے، ہم پر قرآن کے الفاظ حجت ہیں اور ان کے ظاہر معنی کی پیروی فرض ہے۔ 4۔ ”بِغَافِلٍ“ میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”ہرگز“ کے ساتھ کیا گیا ہے۔