وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں (١) اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اس سے کہ وہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے (٢) اور اگر وہ لوگ تمام دلائل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آرہی ہیں (٣)
وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ....: یعنی کان لگا لگا کر سنتے ہیں، جب قیامت کے دن گزشتہ کافروں پر گزرنے والے کچھ احوال بیان فرمائے تو موجودہ کافروں کا بھی کچھ حال بیان فرمایا۔ ( رازی) فرمایا کہ مشرکین آپ کے پاس آکر بڑے غور سے قرآن سنتے ہیں، لیکن ضد اور عناد کی وجہ سے ہدایت حاصل کرنا ان کا مقصد ہی نہیں ہوتا، اس لیے انھیں سننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے حق کو پہچان کر نہ ماننے اور ان کی بدنیتی کی وجہ سے ہم نے انھیں یہ سزا دی ہے کہ ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دیے ہیں، جن کی وجہ سے وہ کان لگا کر سننے کے باوجود نہ سمجھتے ہیں، نہ سنتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۷۹) اب قرآن جیسا عظیم معجزہ دیکھ کر وہ ایمان نہیں لائے تو یہ امید مت رکھیں کہ وہ کوئی بھی معجزہ دیکھ کر ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو برحق جاننے کے باوجود ان کی ضد اور عناد یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ آپ کے پاس آکر جب وہ آپ سے جھگڑتے ہیں اور ان انکار کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح دلائل کا کوئی جواب نہیں سوجھتا تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیاں ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں اخلاق، حکمت اور شریعت کی باتیں ہیں اور اس میں جو قصے بیان کیے گئے ہیں وہ سب سچے واقعات ہیں اور صرف عبرت و نصیحت کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔