قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آپ کہیے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے نہیں دیتا اور کسی کو معبود قرار دوں (١) آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا۔
1۔ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا: ’’ولی‘‘ کا معنی دوست بھی آتا ہے، مالک و مدد گار اور معبود و کارساز بھی، یہاں اس کا معنی مالک و مدد گار اور معبود و کارساز ہے، یعنی وہ زمان و مکاں کا خالق ہی نہیں بلکہ اسے باقی رکھنے والا اور چلانے والا بھی وہی ہے، اسے کسی سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں، باقی سب اسی کا دیا ہوا کھانے والے اور ہر لحاظ سے اس کے محتاج ہیں۔ اس ایک جملے سے مشرکین نے اللہ کے سوا جتنے معبود بنا رکھے تھے ان سب کی نفی ہو جاتی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ ذاریات (۵۶ تا ۵۸)۔ 2۔ قُلْ اِنِّيْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ....: کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ تمام بندوں سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک کے احکام کو مانے اور ﴿وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو ہوتا پھرے، آپ کا یہ کام نہیں کہ اس کا خیال بھی اپنے ذہن میں لائیں۔