وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ
اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب کا اشکال کر رہے ہیں (١)
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا ....: یہ کفار کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے، یعنی ان کے مطالبے کو مانتے ہوئے ہم فرشتہ اتارنا منظور کر بھی لیتے تو وہ بھی انسانی صورت میں آتا، کیونکہ یہ اسے اس کی اصل شکل میں تو دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب وہ آدمی کی شکل میں ہوتا تو پھر یہی اعتراض کرتے جو اب کر رہے ہیں۔ اس وقت کے کافر کسی انسان کو نبی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قوم سے تھے، ان کے سامنے جوان ہوئے اور انھی میں زندگی گزاری، اس لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا انکار نہیں کر سکتے تھے، لہٰذا آپ کے نبی ہونے کا انکار کر دیا۔ اب کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تو مانتے ہیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان ماننے کے لیے تیار نہیں۔ گویا ایک ہی عقیدے کی دو شکلیں ہیں اور دونوں باطل ہیں، حالانکہ اللہ نے اپنا احسان جتلایا ہے کہ میں نے انسانوں میں انھی کے اندر سے رسول بھیجا ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۶۴)۔