وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ
اور جبکہ میں نے حواریین کو حکم دیا (١) کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور آپ شاہد رہیے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں۔
وَ اِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ ....: یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ علیہ السلام پر احسان تھا کہ حواریوں کو ان کا مخلص ساتھی اور مددگار بنا دیا۔ حواری کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار کے ہیں۔ یہاں ’’اَوْحَيْنَاۤ ‘‘ کا معنی انبیاء والی وحی نہیں بلکہ الہام ہے، جو غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس پر بھی وحی کا لفظ بول دیا جاتا ہے، جیسے فرمایا : ﴿وَاَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى ﴾ [ القصص : ۷] ’’اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی۔‘‘ حالانکہ قرآن مجید میں صاف آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا (کوئی عورت نبی نہیں ہوئی)۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۷) اسی طرح فرمایا : ﴿وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ ﴾ [ النحل : ۶۸ ] ’’اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی۔‘‘